علم المقاصد کی تاریخ وتدوین
ہر دینی علم و فن کی
طرح یہ علم و فن بھی قرآن وسنت کے ضمن میں بکثرت موجود تھا؛ لیکن
اسے باقاعدہ علمی حیثیت کافی مدت بعد حاصل ہوئی،
اور اس کے اصول وقواعد کی تدوین و ترتیب مدت بعد ہوئی،اس
علم وفن کی تاریخی حیثیت کو ہم چار اَدوار میں
تقسیم کرسکتے ہیں:
(۱) پہلا دور:
قرآن وسنت کے نزول کا دور ہے ، جس میں
شرعی احکام نبی کریم… پر نازل ہورہے تھے اور بہت سے احکامات کی
تفصیل وتبیین خود نبی کریم… اپنی سنت کے ذریعہ
فرما رہے تھے، یہ دور اس علم و فن کا بالکل ابتدائی اور تولیدی
دور کہلاسکتا ہے۔ گویا اس دور میں یہ علم وفن وجود پذیر
ہورہا تھا۔ اس موقع پر مناسب معلو م ہوتا ہے کہ قرآن کریم سے کچھ مثالیں
پیش کردی جائیں۔
چنانچہ روزوں کی فرضیت کے بیان
میں اس کی حکمت وغایت اور مقصد وہدف بھی واضح کیا گیا
ہے۔قرآن کریم میں ہے:
یَا أَیُّھَا الَّذِینَ
آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی
الَّذِینَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ․ (البقرة:۱۸۳)
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے
فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے والوں پر فرض کیے گئے
تھے؛ تاکہ تمہیں تقویٰ حاصل ہو۔
اس آیت سے واضح ہے کہ روزے کا حکم
حکیمانہ ہے، یعنی اس حکم ہے جس کی حکمت بھی ساتھ بیان
کی گئی ہے اور یہی حکمت اس شرعی حکم کا مقصد کہلارہی
ہے۔
اسی طرح نماز کے بیان میں
بھی اس کے مقاصد کو واضح کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں
ہے:
إِنَّ الصَّلوٰةَ تَنْھَی
عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنکَرِ․ (العنکبوت:۴۵)
بے شک نماز فحاشی اور برائی
سے سے روکتی ہے۔
معلوم ہوا کہ نماز کا ایک مقصد اور
ہدف فحاشی سے اوربرائی سے باز رکھنا ہے؛ چنانچہ جس نماز سے یہ
مقصد حاصل ہوگا وہ اس نماز کے کمال کی دلیل ہے اور جہاں یہ مقصد
حاصل نہ ہورہا ہوتو گویا نماز کا وجود اور ڈھانچہ تو وہاں موجود ہے؛ لیکن
روح سے خالی ہے۔
اسی طرح جہاد کی اجازت دیتے
ہوئے قرآن کریم نے اس کے سبب اور مقصد کو بھی بتلایا ہے۔
قرآن کریم میں ہے:
أُذِنَ لِلَّذِینَ یُقَاتَلُونَ
بِأَنَّھُمْ ظُلِمُوا․ (الحج:۳۹)
جن کے ساتھ مشرکین نے لڑائی کی
ہے، اب انھیں بھی لڑائی کی اجازت دی جارہی ہے
کیوں کہ ان پر ظلم کیا گیا ہے۔
اسی طرح دوسری جگہ ارشاد ہے:
وَقَاتِلُوھُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ
فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ لِلہِ․ (البقرة:۱۹۳)
جب تک فتنہ ختم نہ ہو اور دین اللہ
تعالیٰ کے لیے نہ ہوجائے تب تک ان مشرکوں سے لڑتے رہو۔
ان دوآیات میں جہاد کے سبب
اور غرض وغایت کاصاف لفظوں میں بیان کیا گیا ہے اور
یہی اسباب و اَہداف شرعی احکامات کے مقاصد کہلاتے ہیں۔
طالب علم پر یہ بات بھی واضح
ہورہی ہوگی کہ ان مثالوں میں مقاصد شریعت کا بیان
تو موجود ہے؛ لیکن اس کے باقاعدہ اصول وضوابط موجود نہیں، جیسا
کہ عام طور سے اہلِ علم کسی بھی علم کو مدون کرتے وقت اس کے لیے
قواعد و ضوابط بیان کرتے ہیں؛ اس لیے ہم نے کہا کہ اس علم و فن
کی بنیاد تو قرآن و سنت میں ہی ہے؛ لیکن اس کی
باقاعدہ تدوین بعد میں ہوئی، یہ پہلا دور توصرف اس علم
وفن کے وجود کی ابتداء کا دور ہے۔
(۲) دوسرا دور
نت نئے مسائل وحوادث کے شرعی
احکامات کی تخریج کے لیے اہلِ علم نے جب فقہ کے ساتھ ساتھ اصولِ
فقہ بھی مدون کرنا شروع کیا تو اصولِ فقہ ہی کے ضمن میں
مقاصدِ شریعت کو بیان کیا جانے لگا، اس دور میں مقاصدِ شریعت
کے کچھ قواعد و ضوابط مقرر تو ہوئے؛ لیکن وہ مستقلاً نہیں تھے؛ بلکہ
اصولِ فقہ ہی کے قواعد وضوابط شمار ہوتے تھے؛ چنانچہ ”علت، حکمت، سبب، شرط “
وغیرہ کے مباحث جو اصولِ فقہ کے اہم مباحث میں شمار ہوتے ہیں یہی
مباحث مقاصدِ شریعت سے بھی بہت گہرا ربط و تعلق رکھتے ہیں۔
(۳) تیسرا دور
جب علمائے کرام نے اصولِ فقہ کے ذیل
میں اس علم وفن کو ایک مستقل بحث کی شکل دی یا
اصولِ فقہ سے الگ کرکے اسے باقاعدہ علم وفن کی شکل میں پیش کیا۔
یہ دور تقریباً امام الحرمین ابو المعالی الجوینی(متوفیٰ۴۷۸ھ)سے
شروع ہوتا ہے جنہوں نے اپنی کتاب ”البرہان فی أصول الفقہ“ میں
مستقل اس بحث کو جگہ دی اور عنوان قائم کیا:
”کتاب فی
تقسیم العلل و الأصول التی بھا تظھر المقاصد و یکشف عن المصالح“
اُن علل اور اصولوں کی تقسیم
کا بیان جن کے ذریعے مقاصد شریعت ظاہر ہوتے ہیں اور
مصالحِ شرعیہ سے پردہ اٹھتا ہے، شاید ایسے ہی منفرد مباحث
کی وجہ سے امام تاج الدین عبدالوہاب بن علی بن عبدالکافی
السبکی الشافعی (متوفیٰ۷۷۱ھ)نے اس کتاب
بارے یہ شاندار تبصرہ کیا ہے کہ:
وضع امام
الحرمین فی أصول الفقہ کتاب البرھان علی أسلوب غریب لم یقتد
فیہ بأحد (طبقات الشافعیة للسبکی․ ج۵،ص۱۹۲)
امام الحرمین نے اصول فقہ میں
ایسی کتاب تحریر کی ہے جو بالکل ہی منفرد ہے اور اس
میں انھوں نے کسی کی بھی تقلید نہیں کی(یعنی
مباحث کی جدت اور اسلوب کی ندرت ایسی ہے جو ان سے پہلے کی
لکھی ہوئی اس موضوع کی کتابوں میں نہیں ملتیں)
ان کے بعد ان کے شاگرد امام غزالی(متوفیٰ۵۰۵ھ)
کا دور آتا ہے اور انھوں نے بھی اپنے کمالِ علمی سے اس علم و فن کی
تدوین اور ترویج میں مثالی حصہ لیا؛ چنانچہ ان کی
کتابوں میں ”شفاء الغلیل“، ”المنخول“ اور ”المستصفی“میں
اس موضوع کے مباحث جابجا بکھرے ہوئے ہیں اوربلاشبہ وہ بہت ہی عمدہ ہیں۔
پھر ایک عرصے بعد جلیل القدر
عالم شیخ عزالدین بن عبد السلام (متوفیٰ۶۶۰ھ)
کا دور آتا ہے اور انھوں نے اس علم وفن کو گویا بالکل ہی نئی
زندگی بخش دی اور ان کی تالیفات سے یہ علم و فن
علماء کے حلقوں میں خوب گردش کرنے لگا؛ چنانچہ ان کی کتاب ”قواعد ا
لاحکام فی مصالح الانام“ گویا اس علم و فن کی ابتدائی
مستقل کتابوں میں شمار کی جانے لگی ۔
بعد ازاں ان کے شاگرد امام شہاب الدین
قرافی (متوفیٰ۶۸۵ھ) نے اپنے شیخ کی
پیروی کرتے ہوئے اس علم و فن کے قواعد و ضوابط کی تحریر
وترتیب پر توجہ مبذول کی؛ چنانچہ ان کی اکثر کتابوں میں
اس موضوع کی جھلک موجود ہے؛ مگر خصوصاً ”الفروق“ میں تو یہ علم
وفن پوری شان سے جھلک رہا ہے ۔
اسی طرح اپنے وقت میں جلیل
القدر امام شیخ الاسلام ابن تیمیہ (متوفیٰ۷۲۸ھ)
جو ہر علم وفن میں مثالی مہارت رکھتے تھے، انھوں نے بھی اپنی
تحریرات میں اس علم وفن کی مباحث کو تفصیل کے ساتھ بیان
کیا ہے، اگرچہ وہ سب مباحث ان کی تالیفات میں بکھری
ہوئی ہیں؛ لیکن بہر حال ان کی تحریرات میں اس
علم کا استعمال خوب ہوا ہے۔
یہی حال ان کے شاگرد امام ابن
قیم(متوفیٰ۷۵۱ھ)کا ہے، انھوں نے بھی
اپنے استاذ سے اس علم وفن کی مباحث کو حاصل کرنے کے بعد اسے خوب نکھارا ہے،
خصوصاً ان کی کتاب ”اِعلام الموٴقّعین عن رب العالمین“ اس
علم کی مباحث سے لبریز ہے؛ چنانچہ اس میں صاف صاف تحریر
فرماتے ہیں:
الشریعة
مبناھا و أساسھا علی الحِکَمِ و مصالح العباد فی المعاش والمعاد وھی
عدل کلھا و رحمة کلھا و مصالح کلھا و حکمة کلھا فکل مسئلة خرجت عن العدل الی
الجور و عن الرحمة الی ضدھا و عن المصلحة الی المفسدة و عن الحکمة الی
العبث فلیس من الشریعة و ان ادخلت فیھا بالتاویل․
شریعت کی اساس اوربنیاد
حکمتوں اور بندے کی دنیاوی اور اخروی مصلحتوں پر قائم ہے؛
چنانچہ اسلامی شریعت سراپا عدل ورحمت اور حکمتوں ومصلحتوں سے لبریز
ہے؛ اسی لیے ہر وہ مسئلہ جو عدل کے بجائے ظلم، رحمت کے بجائے غضب ،
مصلحت کے بجائے فساد اور حکمت کے بجائے فضولیات کی طرف لے جانے والا
ہو وہ شرعی حکم نہیں ہوسکتا، اگرچہ اسے تاویل سے شریعت میں
داخل کرنے کی کوشش کی جائے۔
ان سب کے بعد آٹھویں صدی ہجری
میں امام شاطبی (متوفیٰ۷۹۰ھ) آتے ہیں
اور اپنے خدادداد کمال علمی سے اس علم و فن کو باقاعدہ منضبط کرکے اس علم و
فن کے ”شیخ“ قرار پاتے ہیں۔ اس موضوع پر ان کی مستقل کتاب
”الموافقات فی أصول الشریعة“ میں اسی علم وفن کے مبادی
و مباحث کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے حتی
کہ مزید توضیح کے لیے اس کتاب میں ”کتاب المقاصد“ کے
عنوان سے باقاعدہ ایک الگ بحث شامل کی ہے
چنانچہ شیخ الاسلام امام طاہر ابن
عاشور مالکی تیونسی (متوفیٰ۱۳۹۳ھ)
ان کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:
”و الرجل
الفذ الذی أفرد ھذا الفن بالتدوین ھو أبو اسحاق ابراھیم بن موسی
الشاطبی المالکی“(مقاصد الشریعة الاسلامیة لابن عاشور)
وہ باکمال انسان جس نے اس علم کو مدون
کرکے مستقل شکل دی امام ابو اسحاق ابراہیم بن موسی شاطبی
مالکی ہیں۔
(۴) چوتھا دور
یہ عصرِحاضر اور اس سے کچھ ہی
ماضی قریب کا دور ہے۔ اس دور میں یہ علم وفن دوبارہ
زندہ ہوا اور مشرق ومغرب کے متعدد اہلِ علم نے اس علم کو اپنی توجہات کا
مرکز بنایا ، جن میں عبد اللہ دراز مصری خاص طور سے شمار ہیں
جنہوں نے امام شاطبی کی الموافقات کو اپنی تحقیق وتعلیق
کے ساتھ شائع کرکے اہلِ علم پر بڑا احسان کیا، اسی طرح علمائے مغرب میں
سے مالکی شیخ الاسلام تیونسی عالم دین شیخ
طاہر ابن عاشور اور شیخ علال الفاسی نے اس علم کے احیاء وترویج
میں بنیادی وابتدائی حصہ ڈالا؛ چنانچہ اس وقت اہلِ اسلام
میں بہت سے اہل علم اس علم کی خدمت میں مشغول ہیں اور روز
بروز اس علم کی طرف توجہ اور ضرورت بڑھتی ہی جارہی ہے۔
شاہ ولی اللہ ، حجة اللہ البالغة اور علمائے دیوبند
مقاصدِ شریعت پر عبور رکھنے والے
علماء میں ہمارے ہندوستانی عالمِ دین مسند الہند شاہ ولی
اللہ محدث دہلوی کا نام شامل کیے بغیر شاید اس علم کی تاریخ
مکمل ہی نہ ہوسکے۔ آپ کی مایہ ناز کتاب ”حجة اللہ
البالغہ“ نے اس علم کو بہت سی نئی جہات عطاء کیں اور اس اخیر
دور میں عرب وعجم کے متعدد علمائے کرام نے اس علم و فن کے سمجھنے اور اس میں
رسوخ وکمال حاصل کرنے کے لیے اس کتاب سے ہی بنیادی رہنمائی
لی ہے اور محققین کا کہنا یہ ہے کہ یہ کتاب اس موضوع پر
لکھی جانے والی متقدمین کی تمام کتابوں سے فائق اور مفید
تر ہے۔
چنانچہ ہمارے ہاں ہندوستان میں شاہ
صاحب کے بعد ان کے علمی جانشین حلقوں میں علمائے دیوبند
نے اس کتاب پر توجہ مبذول رکھی اور حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی
قدس سرہ نے اپنی تحریرات میں اس علم و فن سے بے حد نفع اٹھایا
اور اس علم کی مباحث کو معقولات کے دائرے سے نکال کر محسوسات کے دائرے میں
داخل کردیا۔
الغرض حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی
کے بعد علمائے دیوبند میں اس علم وفن کے ماہرین میں چار
شخصیات کانام بالکل نمایاں ہے اوران کی تحریرات پڑھنے سے
علم ومعرفت کے نئے در واہوتے ہیں:
حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی(متوفیٰ۱۲۹۷ھ)
شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد
عثمانی(متوفیٰ۱۳۶۹ھ)
حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی
تھانوی(متوفیٰ۱۳۶۲ھ)
حکیم الاسلام مولانا قاری
محمد طیب قاسمی(متوفیٰ۱۴۰۳ھ)
علم المقاصد کی چند اہم کتابیں
بات کو مزید آگے بڑھانے سے قبل
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس موضوع کی چند اہم ترین کتابوں
کا تذکرہ کر دیاجائے:
قواعد
الاحکام فی مصالح الانام، للشیخ عزالدین بن عبد السلام الدمشقیؒ
الموافقات
فی اصول ا لشریعة، للامام ابی اسحاق ابراھیم الشاطبیؒ
مقاصد
الشریعة الاسلامیة، للشیخ الامام محمد الطاھر ابن عاشور المالکی
التیونسیؒ
حجة اللہ
البالغة، للامام الشاہ ولی اللہ المحدث الدھلویؒ
مقاصد
الشریعة الاسلامیة ومکارمھا، للشیخ علّال الفاسی المغربی
ضوابط
المصلحة فی الشریعة الاسلامیة، للشیخ محمد سعید
رمضان البوطی
نظریة
المقاصد عند الامام الشاطبی، للشیخ احمد الریسونی
نظریة
المصلحة فی الفقہ ا لاسلامی، للشیخ حسین حامد حسان
المقاصد
العامة للشریعة الاسلامیة، للدکتور یوسف العالم
نظریة
المقاصد عند الامام محمد الطاھر ابن عاشور، للدکتور اسماعیل حسنی
الشاطبی
و مقاصد الشریعة، للحمادی العُبیدی
المقاصد و
علاقتھا بالادلة الشرعیة، للشیخ محمد سعد الیوبی
المختصر
الوجیز فی مقاصد الشریعة، للشیخ عوض بن محمد القرنی
مقاصد شریعت کی مباحث کہاں
کہاں موجود ہوتی ہیں یا ہوسکتی ہیں؟
یہ بات پہلے عرض کی تھی
کہ متقدمین اہلِ علم کے ہاں مقاصدِ شریعت کے مباحث عموماً اصول فقہ کے
ضمن میں بیان ہوتے تھے اور اب بھی اصولِ فقہ میں ان مباحث
کو مختلف مقامات پر بیان کیا جاتا ہے؛ چنانچہ شیخ نور الدین
الخادمی کے بیان کے مطابق مندرجہ ذیل وہ مقامات ہیں جہاں
مقاصدِ شریعت کے مباحث موجود ہوتے ہیں یا اہلِ علم ان مباحث کو
وہاں درج کر سکتے ہیں:
۱- مباحث القیاس.
۲- مباحث الاستحسان.
۳- مباحث المصلحة المرسلة.
۴- مباحث العرف.
۵- مباحث الذرائع سداً وفتحاً.
۶- مباحث الأحکام الشرعیة (العلل،
الحسن والقبح، وشروط التکلیف).
۷-مباحث
القواعد الشرعیة.
۸- مباحث السیاسة الشرعیة.
۹- مباحث نصوص الأحکام. (آیات وأحادیث
الأحکام)․
۱۰-مباحث
التعارض والترجیح بالمقصد .
۱۱-مباحث
الخلاف الفقھی.
۱۲-مباحث
مفاھیم الموافقة والمخالفة.
۱۳-مباحث
الدراسات الإسلامیة المعاصرة، والتی تتعلق أساساً بإبراز الأھداف
والخصائص والقیم الإسلامی العامة.
۱۴-مباحث
الدراسات الشرعیة والقانونیة والفکریة ذات الصلة بالمقاصد
والمصالح الشرعیة.
یہ ذہن میں رکھنا ضروری
ہے کہ عموماً علمائے مقاصدِ شریعت کے یہاں حکمت، علت اور مصلحت کے
الفاظ ہم معنی ہوتے ہیں ، اگرچہ علمائے اصولِ فقہ ان میں فرق
کرتے ہیں۔
$$$
------------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ11،
جلد:100 ، صفرالمظفر 1438 ہجری مطابق نومبر 2016ء